بِسمِ اللہ الرّحمٰنِ الرّ حِیم صحیح مسلم اردو ترجمہ حدیث 1 تا 20 - 1 April 2012 - Blog - MUHAMMAD ZAHEER ANWAR B.A COMP. SCIENCES
Muhammad Zaheer Anwar
Blog
Login form

MENU

Block title
Block content

Statistics

Welcome, Guest · RSS 20 Apr 2024, 11:49:47 AM

Main » 2012 » April » 1 » صحیح مسلم اردو ترجمہ حدیث 1 تا 20
2:30:45 AM
صحیح مسلم اردو ترجمہ حدیث 1 تا 20
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1     
 سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمام انبیاء اور رسولوں پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ۔ بعد حمد وصلوة امام مسلم اپنے شاگرد ابواسحاق کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے کہ تو نے اپنے پروردگار ہی کی توفیق سے یہ ذکر کیا تھا کہ دین کے اصول اور اس کے احکام سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو احادیث مروی ہیں ان تمام احادیث کی تلاش و جستجو کی جائے اور وہ احادیث جو ثواب عذاب اور رغبت اور خوف وغیرہ کے متعلق مروی ہیں یعنی فضائل واخلاق کے متعلق حدیثیں اور ان کے سوا اور باتوں کی اسناد کے ساتھ جن کی رو سے وہ حدیثیں نقل کی گئی ہیں اور جن کو علماء حدیث نے قبول کیا ہے اللہ تعالیٰ تم کو ہدایت دے کہ تم سے اس بات کا ارادہ ظاہر کیا کہ اس قسم کی تمام احادیث کا ایک مجموعہ تیار کیا جائے اور تم نے یہ سوال کیا تھا کہ میں ان سب حدیثوں کو اختصار کے ساتھ تمہارے لئے جمع کروں اور اس میں تکرار نہ ہو اس لئے کہ تکرار سے مقاصد یعنی احادیث میں غور وخوض کرنے اور ان سے مسائل کے نکالنے میں رکاوٹ پیدا ہوگی اللہ تعالیٰ تمہیں عزت عطا فرمائے تم نے جس بات کا سوال کیا جب میں نے اس پر غور کیا اور اس کے انجام کو دیکھا اللہ کرے اس کا انجام اچھا ہو تو سب سے پہلے دوسروں کے علاوہ مجھے خود فائدہ ہوگا بہت سے اسباب سے پہلے دوسروں کے علاوہ مجھے خود فائدہ ہوگا بہت سے اسباب کی وجہ سے جن کا بیان کرنا طویل ہے مگر اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس طرح سے تھوڑی سی احادیث کو یاد رکھنا مضبوطی اور صحت کے ساتھ آسان ہے خاص کر ان لوگوں کے لئے جنہیں صحیح اور غیر صحیح احادیث میں جس وقت تک دوسرے لوگ واقف نہ کرائیں تمیز ہی حاصل نہیں ہو سکتی پس جب معاملہ اس میں ایسا ہی ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا تو ارادہ کرنا کم صحیح روایات کی طرف زیادہ ضعیف روایات سے افضل و اولی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ بہت سی روایات کو اس شان سے بیان کرنا اور مکررات کو جمع کرنا خاص خاص لوگوں کے لئے نفع بخش ہے جن کو علم حدیث میں کچھ حصہ اور بیداری عطاء کی گئی ہے اور حدیث کے اسباب وعلل سے معرفت حاصل ہے پس اگر اللہ نے چاہا تو ایسا شخص جس کو علم حدیث سے کچھ علم دیا گیا ہے وہ کثرت کے ساتھ جمع شدہ احادیث سے فائدہ حاصل کرسکتا ہے بہرحال عام لوگوں میں سے جو صاحب واقفیت ومعرفت ہیں کے برعکس ہیں ان کے لئے کثرت احادیث کا کوئی فائدہ نہیں اور تحقیق وہ کم احادیث کی معرفت سے عاجز آگئے ہیں ۔ پھر اگر اللہ نے چاہا تو ہم شروع ہوں گے نکالنے میں ان احادیث کے جس کا تم نے سوال کیا ہے اور تالیف اس کی ایک شرط پر عنقریب میں اس کو تمہارے لئے ذکر کروں گا اور وہ شرط یہ ہے کہ ہم ارادہ کرتے ہیں ان تمام احادیث کا جو سندا متصلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں پس ہم ان کو تقسیم کرتے ہیں تین اقسام پر اور راویوں کے تین طبقات ثقہ متوسطین ضعفاء پر بغیر تکرار کے ہاں یہ کہ ایسی جگہ میں حدیث آجائے کہ مستغنی نہ کیا جائے اس حدیث کے تکرار سے اس میں معنا زیادتی ہو یا اسناد واقع ہو دوسری اسناد کے پہلو میں کوئی علت کسی علت کی وجہ اور ضرورت کے پیش نظر تکرار ہوگا ۔ کیونکہ ایسے معنی کی زیادتی حدیث میں جس کے احتیاج ہو تو وہ مثل ایک پوری حدیث کے ہے پس ضروری ہوا اس حدیث کا اعادہ کرنا جس میں وہ زیادتی موجود ہو یا یہ کہ جدا کیا جائے وہ معنی پوری حدیث سے اختصار کے ساتھ جب ممکن ہو لیکن اس کا جدا کرنا کبھی مشکل ہوتا ہے اس پوری حدیث سے تو اس خاص ضرورت ومصلحت کے تحت ہم اس پوری حدیث کا اعادہ کردیتے ہیں لیکن اگر تکرار سے بچنے کی کوئی صورت نکل سکے تو ہم ہرگز اعادہ نہیں کریں گے ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ قسم اول میں ہم ان احادیث مبارکہ کو بیان کریں گے جن کی اسانید دوسری احادیث کی اسانید اور عیوب ونقائص سے محفوظ ہوں گی اور ان کے راوی زیادہ معتبر اور قوی وثقہ ہوں گے حدیث میں کیونکہ نہ تو ان کی روایت میں سخت اختلاف ہے اور نہ فاحش اختلاط جیسا کہ کثیر محدیثن کی کیفیت معلوم ہوگئی ہے اور یہ بات ان احادیث کی روایت سے پائے ثبوت تک پہنچ چکی ہے پھر ہم اس قسم کے لوگوں کی مرویات کا ذکر کرنے کے بعد ایسی احادیث لائیں گے جن کی اسانید میں وہ لوگ ہوں جو اس درجہ اتقان اور حفظ سے موصوف نہ ہوں جو اوپر ذکر ہوا لیکن تقوی پرہیزگاری اور صداقت وامانت میں ان کا مرتبہ ان سے کم نہ ہوگا کیونکہ ان کا عیب ڈھکا ہوا ہے اور ان کی روایت بھی محدیثن کے ہاں مقبول ہے جیسا کہ عطا بن سائب اور یزید بن ابی زیاد لیث بن ابی سلیم اور ان کی مثل حاملیں آثار اور نقول احادیث اگرچہ اہل علم میں مشہور اور مستور ہیں محدیثن کے پاس اتقان اور استقامت روایت میں ان سے بڑھ کر ہے حال اور مرتبہ میں اہل علم کے ہاں بلند درجہ اور عمدہ خصلت ان کو فضلت والوں میں سے کر دیتی ہے کیا تم نہیں دیکھتے جب تم ان تینوں کا جن کا ہم نے نام لیا عطا یزید اور لیث کا منصور بن معتمر اور سلیمان اعمش اور اسماعیل بن خالد سے مواز  نہ کر و حدیث کے اتقان اور استقامت میں تو تم ان کو بالکل ان سے جدا اور الگ پاؤگے ہرگز ان کے قریب نہ ہوں گے اس بات میں محدیثن کے ہاں بالکل شک نہیں ہے اس لئے کہ ان کے ہاں ثابت ہوگیا ہے صحت حفظ منصور اور اعمش اور اسماعیل کا اور ان کا اتقان حدیث میں نہیں پہچان حاص کر سکے ان جیسی عطاء یزید اور لیث سے اور ایسی ہی کیفیت ہے جب تو ہم عصروں کے درمیان مواز  نہ کر ے جیسے ابن عوف اور ایوب سختیانی کا عوف بن ابی جمیلہ اور اشعث حمرانی کے ساتھ یہ دونوں مصاحب اور ساتھ تھے حسن بصری اور ابن سیرین کے جیسا کہ ابن عوف اور ایوب سختیانی ان کے ساتھی ہیں ہاں بے شک ان دونوں میں بڑا فرق ہے ابن عوف اور ایوب کا درجہ اعلی ہے کمال فضل اور صحت روایت میں اگرچہ عوف اور اشعث بھی اہل علم کے ہاں سچے اور امانت دار ہیں لیکن اصل حال درجے کے اعتبار سے ہے ۔ محدیثن کے ہاں وہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہم نے اس لئے یہ مثالیں دی ہیں کہ جو لوگ محدثین کے اصول اور تنقیدی طریق کار کو نہیں جانتے وہ آسانی کے ساتھ راویوں کے مقام ومرتبہ کی پہچان حاصل کر سے تاکہ بلند مرتبہ راوی کو کم اور کم مرتبہ محدث کو اس سے زیادہ مرتبہ نہ دیا جائے اور ہر محدث کو اس کے منصب کے مطابق مقام ومرتبہ میسر آئے اور تحقیق سیدہ عائشہ صدیقہ سے روایت ذکر کی گئی ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ہم لوگوں سے انکے مرتبہ اور منصب کے مطابق سلوک کریں اور اسکی تائید قرآن سے بھی ہوتی ہے اللہ عزوجل کا فرمان ہے وفوق کل ذی علم علیم ہو عالم سے بڑھ کر علم والا ہوتا ہے ۔ انہی طریقوں پر جو ہم نے اوپر بیان کئے ہیں جمع کرتے ہیں جو تم نے سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثوں سے ہاں وہ لوگ جو اکثر یا تمام محدثین کے نزدیک مطعون ہیں جیسے عبداللہ بن مسور ابوجعفر مدائنی عمرو بن خالد عبدالقدوس شامی محمد بن سعید مصلوب غیاث بن ابراہیم سلیمان بن عمرو ابی داؤد نخعی اور ان جیسے دوسرے لوگ جن پر وضع حدیث کی تہمت ہے وہ ازخود احادیث بنانے میں بدنام ہیں اسی طرح وہ لوگ بھی جن کی اکثر احادیث منکر ہوتی ہیں یا غلط روایات تو ایسے تمام لوگوں کی روایات کو ہم اپنی کتاب میں جمع نہیں کریں گے ۔ اصطلاح اصول حدیث میں منکر اس شخص کی حدیث کو کہتے ہیں جو ثقہ اور کامل الحفظ راویوں کی روایت کی خلاف روایت کرے یا ان احادیث کی کسی موافقت نہ ہو پس جب اس کی احادیث میں سے اکثر اسی طرح ہوں تو وہ متروک الحدیث ہوگا اور اس کی مرویات محدثین کے نزدیک قابل قبول اور قابل عمل نہیں ہوتیں اس قسم کے محدثین میں سے عبداللہ بن محرر یحیی بن ابی انیسہ جراح بن منہال ابوالعطوف اور عباد بن کثیر اور حسین بن عبداللہ بن ضمیرہ اور عمر بن صہبان وغیرہ اور ان کی مثل دوسرے حضرات منکر حدیث روایت کرنے والے ہیں پس ہم ان لوگوں کی روایات نہیں لاتے اور نہ ہی ان میں مشغول ہوتے ہیں کیونکہ اہل علم کا حکم ہے اور جو ان کے مذہب سے معلوم ہوا وہ یہ ہے کہ جو راوی اپنی روایت میں متفرد ہو لیکن اس کی بعض روایات کو بعض دوسرے ثقہ اور حفاظ راویوں نے بھی روایت کیا ہو اور کسی حدیث میں اس کی موافقت کی ہو جب یہ شرط پائی جائے پھر اس کے بعد وہ متفرد راوی اپنی روایت میں کچھ الفاظ کی زیادتی کرتا ہے جن کو اس کے دوسرے معاصرین نے روایت نہیں کیا تو اس کی زیادتی قبول کی جائے گی لیکن اگر تم کسی کو دیکھو کہ وہ زہری جیسے بزرگ شخص سے روایت کرنے کا قصد کرے جس کے شاگرد کثیر تعداد میں حافظ ومتقن ہیں جو اس کی اور دوسروں کی حدیثوں کو روایت کرتے ہیں یا ہشام بن عروہ سے بھی روایت کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ان دونوں محدیثن کی روایات اہل علم کے ہاں بہت مشہور اور پھیلی ہوئی ہیں ان کے شاگردوں نے بھی ان کی اکثر روایات کو بالاتفاق روایت کیا ہے پس اگر کوئی محدث ان مذکورہ بالا دونوں محدثین سے یا ان میں سے کسی ایک سے ایسی روایت کا راوی ہو جس روایت کو ان کے شاگردوں میں سے کسی نے بیان نہ کیا ہے اور یہ راوی ان راویوں میں سے بھی نہیں جو صحیح روایات میں ان کے مشہور شاگردوں کا شریک رہا ہو تو اس قسم کے راوی کی حدیث کو قبول کرنا جائز نہیں اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے ۔ ہم نے روایت حدیث کے سلسلہ میں محدثین کے مذہب کو بیان کر دیا ہے تاکہ جو لوگ اصول روایت حدیث سے ناواقف ہیں ان کو بھی ابتدائی معلومات حاصل ہوجائیں جن کو توفیق دی جائے لوگوں میں سے اور ہم عنقریب اس کو شر اور وضاحت سے بیان کریں گے اگر اللہ نے چاہا اس کتاب کے کئے مقامات میں معللہ اخبار کے ذکر کے موقع پر جب وہ اپنے مقامات میں آئیں گی اور جہان شرح کرنا اور وضاحت کرنا مناسب ہوگا ۔ اے شاگرد عزیز ! ان تمام مذکورہ بالا باتوں کے بعد اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم کرے اگر ہم برے کا برا عمل نہ دیکھتے جو وہ کر رہے ہیں یعنی وہ محدث صحیح اور مشہور روایت پر اکتفا نہیں کرتا اور وہ اپنے جی میں محدث بنا ہوا ہے ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ ضعیف اور منکر احادیث کو نقل نہ کرے اور صرف انہیں اخبار کو نقل کرے جو صحیح اور مشہور ہیں جن کو معروف ثقہ لوگوں نے سچائی اور امانت کے ساتھ اس معرفت اور اقرار کے بعد روایت کیا ہے ان کی بیان کردہ اکثر روایات جو نامعلوم افراد کی طرف منسوب ہیں منکر اور غیر مقبول ہیں اور ایسے لوگوں سے مروی ہیں جن کی مذمت آئمة الحدیث میں سے مالک بن انس شعبہ بن حجاج سفیان بن عینیہ یحیی بن سعید القطان اور عبدالرحمن بن مہدی وغیر ہم نے کی ہے جب آسان ہو گیا ہم پر تیری خواہش کا پورا کرنا صحیح احادیث کی تمیز اور تحصیل کے ساتھ لیکن اسی وجہ سے جو ہم نے بیان کی کہ لوگ منکر روایات کو ضعیف اور مجہول اسناد سے روایت کرتے ہیں اور عوام کو سناتے ہیں جن میں عیوب کی پہچان کی لیاقت نہیں تو ہمارے لوگوں پر تیرے سوال کو جواب دینا آسان ہوگیا ۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 2              مکررات 1 متفق علیہ 1 بدون مکرر
 یاد رکھو یاد رکھو ! اللہ آپ کو توفیق دے ہر ایک محدث پر جو صحیح اور غیر صحیح احادیث میں پہچان رکھتا ہے ثقہ اور غیر ثقہ راویوں کی معرفت رکھتا ہو واجب ہے کہ وہ صرف ایسی روایات ذکر کرے جن کی اسناد صحیح ہوں اور ان کے راویوں میں سے کوئی راوی بھی جھوٹ سے متہم بدعتی اور مخالف سنت نہ ہو ان کا عیب فاش نہ ہوا ہو ہمارے اس قول کی دلیل ایسی لازم ہے کہ اس کا مخالف نہیں وہ اللہ تبارک وتعالی کا قول مؤمنو اگر کوئی بد کر دار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو مبادا کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچادو پھر تم کو اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے نیز ارشاد ربانی ہے جو تمہارے پسندیدہ گواہ ہوں نیز ارشاد باری ہے ان لوگوں کو گواہ بناؤ جو عادل ہوں یہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ فاسق کی خبر غیر مقبول ہے اور جو شخص عادل نہ ہو اس کی گواہی مردود ہے حدیث بیان کرنے اور گواہی دینے میں اگرچہ کچھ فرق ہے مگر دونوں ایک بڑے معنی میں مشترک ہیں کیونکہ فاسق کی روایت اسی طرح محدثین کے نزدیک مردود ہے جس طرح عام لوگوں کے نزدیک اس کی گواہی غیر مقبول ہے اور حدیث دلالت کرتی ہے اس بات پر کہ منکر کا روایات بیان کرنا درست نہیں جس طرح قرآن مجید سے خبر فاسق کا غیر معتبر ہونا ثابت ہے اور وہ حدیث وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شہرت کے ساتھ منقول ہے کہ جس نے علم کے باوجود جھوٹی حدیث کو میری طرف منسوب کیا وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے ۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 3        حدیث مرفوع       مکررات 27 متفق علیہ 14 
 ابوبکر بن ابی شیبہ ، وکیع ، شعبہ ، حکم ، عبدالرحمن بن ابی لیلی ، سمرہ بن جندب ، ح، ابوبکر بن ابی شیبہ ، وکیع، شعبہ ، سفیان ، حبیب ، میمون ، ابی شبیب ، مغیرہ بن شعبہ اس روایت کو امام مسلم نے اپنی دو اسناد کے ساتھ سیدنا مغیرہ بن شعبہ اور سیدنا سمرہ بن جندب سے روایت کیا ہے ۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 4        حدیث متواتر حدیث مرفوع       مکررات 27 متفق علیہ 14 
 ابوبکر بن ابی شیبہ ، غندر ، شعبہ ، محمد بن مثنی ، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ ، منصور، ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ اس نے سنا حضرت علی نے دوران خطبہ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھ پر جھوٹ مت باندھو جو شخص میری طرف جھوٹ منسوب کرے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا ۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 5        حدیث متواتر حدیث مرفوع       مکررات 27 متفق علیہ 14 
 زہیر بن حرب، اسماعیل بن علیہ ، عبدالعزیز بن صہیب ، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ مجھے تم سے بکثرت احادیث بیان کرنے سے صرف یہ چیز مانع ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی جو شخص عمدا مجھ پر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے ۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 6        حدیث متواتر حدیث مرفوع       مکررات 27 متفق علیہ 14 
 محمد بن عبید عنبری ، ابوعوانہ ، ابوحصین ، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات کی نسبت کرے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے ۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 7        حدیث متواتر حدیث مرفوع       مکررات 27 متفق علیہ 14 
 محمد بن عبداللہ بن نمیر، سعید بن عبید ، حضرت علی بن ربیعہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں مسجد میں آیا اور ان دنوں امیر کوفہ مغیرہ بن شعبہ تھے مغیرہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ مجھ پر جھوٹ ایسا نہیں جیسا کہ کسی اور پر جھوٹ باندھنا جو مجھ پر عمدا جھوٹ باندھتا ہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے ۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 8        حدیث متواتر حدیث مرفوع       مکررات 27 متفق علیہ 14 
 علی بن حجرسعدی ، علی بن مسہر، محمد بن قیس اسدی ، علی بن ربیعہ اسدی ، مغیرہ بن شعبہ ایک دوسری سند امام مسلم نے بیان فرمائی ہے کہ حضرت شعبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرماتے ہیں لیکن امین ان کذنا علی لیس ککذب علی احد کے الفاظ ذکر نہیں کئے۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 9        حدیث مرفوع       مکررات 9 متفق علیہ 8 
  عبیداللہ بن معاذ عنبری ، محمد بن مثنی ، عبدالرحمن بن مہدی ، شعبہ ، خبیب بن عبدالرحمن ، حفص بن عاصم ، حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کر دے ۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 10        حدیث مرفوع       مکررات 9 متفق علیہ 8 
 ابوبکر بن ابی شیبہ ، علی بن حفص ، شعبہ ، خبیب بن عبدالرحمن ، حفص بن عاصم ، ابوہریرہ سیدنا ابوہریرہ سے اسی روایت کی مثل حدیث بیان کی ہے ۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 11        حدیث مرفوع       مکررات 9 متفق علیہ 8 
 یحیی بن یحیی ، ہشیم ، سلیمان تیمی ، حضرت ابوعثمان نہدی سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا ہر سنی ہوئی بات کو بیان کردینا ہی آدمی کے جھوٹے ہونے کے لئے کافی ہے۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 12        حدیث مرفوع       مکررات 9 متفق علیہ 8 
 ابوطاہر احمد بن عمرو بن عبداللہ بن عمرو بن سرح ، ابن وہب ، حضرت امام مالک نے فرمایا جان لے اس بات کو کہ جو شخص ہر سنی ہوئی بات کو بیان کر دے وہ غلطی سے محفوظ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ایسا شخص کبھی مقتدا اور امام بن سکتا ہے اس حال میں کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کردے ۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 13        حدیث مرفوع       مکررات 9 متفق علیہ 8 
 محمد بن مثنی ، عبدالرحمن ، سفیان ، ابواسحاق ، ابوالاحوص ، عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ ہر سنی ہوئی بات کو نقل کر دینا ہی آدمی کے جھوٹے ہونے کے لئے کافی ہے ۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 14        حدیث مرفوع       مکررات 9 متفق علیہ 8 
 محمد بن مثنی ، حضرت عبدالرحمن بن مہدی نے فرمایا ایسا انسان کبھی لائق اقتداء امام نہیں بن سکتا جب تک وہ سنی ہوئی باتوں سے اپنی زبان کو نہیں روکے گا۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 15        حدیث مرفوع       مکررات 9 متفق علیہ 8 
 یحیی بن یحیی ، عمر بن علی بن مقدم ، سفیان بن حسین سے مروی ہے کہ مجھ سے ایاس بن معاویہ نے پوچھا کہ میرا گمان ہے کہ تم قرآن کے حاصل کر نے میں بہت محنت کرتے ہو تو میرے سامنے ایک سورت پڑھو اور اسکی تفسیر بیان کرو تاکہ میں تمہارا علم دیکھو سفیان نے کہا کہ میں نے ایسا ہی کیا ایاس بن معاویہ نے کہا میری بات کو یاد رکھو کہ ناقابل اعتبار احادیث بیان نہ کرنا کیونکہ جس نے شناعت کو اختیار کیا وہ شخص خود بھی اپنی نظر میں حقیر ہو جاتا ہے اور دوسرے لوگ بھی اس کو جھوٹا سمجھتے ہیں ۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 16        حدیث مرفوع       مکررات 9 متفق علیہ 8 
 ابوطاہر ، حرملہ بن یحیی ، ابن وہب ، یونس ، ابن شہاب، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ ، سیدنا عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ جب تم لوگوں سے ایسی احادیث بیان کروگے جہاں ان کی عقول نہ پہنچ سکیں تو بعض لوگوں کے لئے یہ فتنہ کا باعث بن جائے گی یعنی وہ گمراہ ہو جائیں گے اس لئے ہر شخص سے اس کی عقل کے موافق بات کرنے چاہئے ۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 17        حدیث مرفوع       مکررات 2 متفق علیہ 2 بدون مکرر

 محمد بن عبداللہ بن نمیر، زہیر بن حرب ، عبداللہ بن یزید، سعید بن ابی ایوب ، ابوہانی ، ابوعثمان مسلم بن یسار، حضرت ابوہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت کے اخیر زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو تم سے ایسی احادیث بیان کیا کریں گے جن کو نہ تم اور نہ ہی تمہارے آباؤ اجداد نے اس سے پہلے سنا ہوگا لہذا ان لوگوں سے جس قدر ہو سکے دور رہنا ۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 18        حدیث مرفوع       مکررات 2 متفق علیہ 2 بدون مکرر
 حرملہ بن یحیی ، عبداللہ بن حرملہ بن عمران تجیبی ، ابن وہب ، ابوشریح ، شراحیل ، مسلم بن یسار، حضرت ابوہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا آخر زمانہ میں جھوٹے دجال لوگ ہوں گے تمہارے پاس ایسی احادیث لائیں گے جن کو نہ تم نے نہ تمہارے آباؤ اجداد نے سنا ہوگا تم ایسے لوگوں سے بچے رہنا مبادا وہ تمہیں گمراہ اور فتنہ میں مبتلا نہ کر دیں ۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 19        حدیث مرفوع       مکررات 2 متفق علیہ 2 بدون مکرر
 ابوسعید اشج ، وکیع، اعمش ، مسیب بن رافع ، عامر بن عبدہ ، حضرت عبداللہ بن مسعود بیان فرماتے ہیں کہ شیطان انسانی شکل وصورت میں قوم کے پاس آکر ان سے کوئی جھوٹی بات کہہ دیتا ہے لوگ منتشر ہوتے ہیں ان میں سے ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نے ایسے آدمی سے سنا یہ بات سنی ہے جس کی شکل سے واقف ہوں لیکن اس کا نام نہیں جانتا ۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 20 حدیث مرفوع مکررات 2 متفق علیہ 2 بدون مکرر
 محمد بن رافع، عبدالرزاق ، معمر ، ابن طاؤس ، طاؤس، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ سمندر میں بہت سے شیاطیں گرفتار ہیں جن کو حضرت سلیمان نے گرفتار کیا ہے قریب ہے کہ ان میں سے کوئی شیطان نکل آئے اور لوگوں کے سامنے قرآن پڑھے ۔
Views: 550 | Added by: mza_pakistani | Rating: 0.0/0
Total comments: 1
1 Muhammad Zaheer Anwar  
0
keep it up

Name *:
Email *:
Code *:
Copyright MyCorp © 2024